عمران خان نے ملتان بھی فتح کرلیا

عمران خان نے ملتان بھی فتح کرلیا

file (1)
عمران خان نے 60 دنوں کے کامیاب دھرنوں کے ساتھ لاہور ، میانوالی کے بعد ملتان بھی فتح کر لیا ۔تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) 25 سال سے ملک کے ساتھ ڈرامہ کررہے ہیں جبکہ آصف زرداری اور نوازشریف کے مفادات ایک ہیں ان دونوں کی اوپر سے لڑائی اور اندر بھائی بھائی ہیں لیکن میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان دونوں کی پارٹنر شپ توڑ کر دکھاوںگا۔

ملتان کے قاسم باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 60 دن پہلے جب لاہور سے اسلام آباد کے لیے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ نوازشریف کا استعفیٰ ملا تو بڑی جیت ہوگی لیکن مجھے پتا نہیں تھا اللہ میری قوم کو اس طرح جگا دے گا، آج میری قوم جاگ چکی ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور یہ استعفے سے بھی بڑا کام ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری زندگی کا مقصد صرف پاکستانیوں کو ایک قوم بنانا ہوگا، کوئی چیز بھی اپنے لیے نہیں کروں گا بلکہ ساری زندگی عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی کوشش کروں گا اگر عوام میری ٹیم بنے تو ثابت کردوں گا کہ جو پاکستان آج مقروض ہے اور جہاں تعلیم، روزگار، غربت اور انصاف کے مسائل ہیں اس پاکستان کو ایک ایسی مثالی ریاست بنا کر دکھاو¿ں گا جو قائد اعظم چاہتے تھے۔

عمران خان نے پاکستانی قوم کو جگادیا

عمران خان نے کہا کہ ملک میں ایک طرف ڈرون حملے تو دوسری طرف بارڈر پر بھارتی فوج فائرنگ کررہی ہے جس میں ہمارے لوگ شہید ہورہے ہیں لیکن نوازشریف نے ابھی تک ڈرون حملوں اور ہندوستانی جارحیت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا جبکہ وہ الیکشن سے پہلے ڈرون حملوں کے خلاف بولتے تھے لیکن اب کیوں چپ ہیں کیونکہ ان کے اربوں ڈالر مغربی بینکوں میں پڑے ہیں اور ان کے بچے باہر بزنس کرتے ہیں اس لیے ان کی جرات نہیں کہ امریکی ڈرون حملوں کو ملکی سلامتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن نوازشریف کیوں چپ ہیں، ان کا بیٹا ہندوستان میں بزنس کرتا ہے اور ان کو اپنا کاروبار پاکستان کے مفادات سے زیادہ پیارا ہے۔

file (2)
نوازشریف بتائیں کہ وہ ڈرون حملوں اور بھارتی جارحیت
پر کیوں خاموش ہیں؟

جندال گروپ آف انڈسٹریز کے ساتھ اسٹیل مل لگانا نواز شریف کے ہندوستان  کے خلاف بیان دینے  میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
چیرمین تحریک انصاف نے اپنے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نریندری مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ مودی کو پیغام دیتاہوں کہ وہ بارڈر پر جو طاقت دکھا کر سوچ رہے ہیں کہ پاکستانی قوم خوف زدہ ہوجائے گی لیکن وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں یہ نیا پاکستان بننے جارہا ہے جہاں فوج اور قوم اکٹھی ہیں اور ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی انتہا پسندوں کے ترجمان نہ بنیں اگر ان کی بڑی سوچ ہوتی تو وہ اقتدار میں آکر کشمیر کا مسئلہ حل کرتے اور اپنی فوج وہاں سے واپس بلاتے کیونکہ ان کے پاس یہ سنہری موقع تھا، مودی کے پاس یہ امن لانے کا وقت تھا اگر امن آمان آ تا تو دونوں ملکوں میں خوشحالی آتی اور ہم اپنا پیسہ بندوقوں پر خرچ کرنے کےبجائے اپنے عوام پر لگاتے۔
جہاں فوج اور قوم اکٹھی ہوتی ہیں اُسے کوئی دوسرا ملک شکست نہیں دے سکتا
عمران خان کا کہنا تھا کہ قوم وعدہ کرے آئندہ ایسے کسی شخص کو ووٹ نہیں دے گی جو بزنس مین ہو اور اس کا پیسہ بیرون ملک میں رکھا ہو، نوازشریف ایک بزنس مین ہیں انہوں نے جتنے بھی بیرونی دورے کیے سب اپنے کاروبار کے لیے کیے ان سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اس لیے اب اگر کوئی بزنس مین سیاست میں اآئے تو اسے پہلے اپنا بزنس چھوڑنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور(ن) لیگ 25 سال سے ملک کے ساتھ ڈرامہ کررہے ہیں، آصف زرداری اور نوازشریف کے مفادات ایک ہیں ان لوگوں کی اوپر سے لڑائی اور اندر سے بھائی بھائی ہیں لیکن میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ان دونوں کی پارٹنر شپ توڑ کر دکھاوں گا، زرداری اور نوازشریف پاکستان میں پیسہ بناتے اور باہر عیاشی کرتے ہیں اب میں ایک ہی گیند سے ان دونوں کی وکٹیں  آڑادو ں گا۔

file (3)
چیرمین تحریک انصاف نے کہا کہ زرداری اور نوازشریف اپنے اثاثے ظاہر کریں کیونکہ یہ قوم کا حق ہے کہ وہ جس کو منتخب کرے اس کے بارے میں پوچھے، ہم ان کے اثاثوں پر عدالت اور الیکشن کمیشن جانے کا سوچ رہے ہیں جہاں ان کے اثاثے معلوم کرکے عوام کے سامنے لائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرانے سیاستدان اس نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور عوام کا خون چوس رہے ہیں، ہمارے دھرنوں کو دیکھ کر اب سب اکٹھے ہوگے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر عوام کی قوت سے تحریک انصاف اقتدار میں آگئی تو ان کی سیاستی دکانیں بند ہوجائیں گی اور میرا عوام سے وعدہ ہے کہ ان کی سیاسی دکانیں بند کرکے دکھاوں گا۔
عمران خان نے کہا کہ ملک میں نئے صوبے بننے چاہئیں، لیکن اس پر بہت سوچنے کی ضرورت ہے اس کا مقصد عوام کی زندگی آسان کرنا ہے، ہم انتظامی بنیادوں پر صوبوں کے لیے کمیشن بنائیں گے، بلدیاتی نظام کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر عوام آزاد نہیں ہوسکتے، ہم ایک ایسا بلدیاتی نظام لائیں گے جس میں لوگ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں گے، کسانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ان پر ہونے
والے ظلم کا خاتمہ کریں گے، چھوٹے سرمایہ کاروں کی مدد کریں گے اس کے بغیر ملک سے غربت ختم نہیں ہوسکتی، پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی تمام پالیسیاں طاقتوروں لوگوں کے لیے ہیں لیکن نئے پاکستان میں تمام پالیسیاں عوام کے لئے بنیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اب زیادہ دیر نہیں ہے نوازشریف جلدی استعفیٰ نہ دیں مجھے موقع دیں کہ میں سارا پاکستان پھروں اور لوگوں کو جگاوں۔
اس موقع پر تحریک انصاف کے چیرمین نے 21 نومبر کولاڑکانہ میں جلسے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری تیار ہوجائیں میں سندھ آ رہا ہوں اور مجھےاس دن کا بے چینی سے انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور آصف زرداری سندھ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں لیکن میں عام سندھیوں کو کھڑا کروں گا اور جاگیرداروں کے ظلم میں پسے ہوئے طبقے کو اکٹھا کروں گا ، سندھ کے عوام کا سارا پیسہ وڈیرے اور سیاستدان کھا جاتے ہیں لیکن میں اب وہاں کے مظلوم طبقے کو جگاوں گا اور پسا ہوا طبقہ جس دن اٹھ گیا تو ملک میں ہر طرف خوشحالی ہوگی۔

Categories: عمران خان نے ملتان بھی فتح کرلیا | Leave a comment

چینی صدر کی پاکستان آمد ، توانائی ، اقتصادی راہداری سمیت اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہو نگے

چینی صدر کی پاکستان آمد ، توانائی ، اقتصادی راہداری سمیت اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہو نگے

file

سلام آباد + بیجنگ (سٹاف رپورٹر+ وقائع نگار+ رائٹرز+آن لائن) پاکستان نے چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان کا شیڈول جاری کردیا۔ چینی صدر دو روزہ سرکاری دورے پر 20 اپریل (پیر) کو پاکستان پہنچیں گے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سمیت یمن اور افغانستان میں استحکام کیلئے ثالثی کے کردار پر تبادلہ خیال کیا جائیگا جبکہ اس موقع پر توانائی، مواصلات، انفرا سٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کے47 معاہدوں پر دستخط بھی کئے جائیںگے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ چینی صدر کا دورہ سٹرٹیجک لحاظ سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس دوران دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو کوششوں اور بلوچستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائیگا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق معزز مہمان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ ترجمان کے مطابق ژی جنگ پن جنہیں گزشتہ سال پاکستان آنا تھا اب انکے استقبال کی تیاریاں کی جاری ہیں۔ ایک خصوصی تقریب میں انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان دیا جائیگا جبکہ صدر مملکت ژی جنگ پن کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔ اس موقع پر چینی صدر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سے بھی ملاقاتیں کریںگے۔ چینی صدر اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان آئیں گے اور انکے وفد میں سینئر وزراء اور کمیونسٹ پارٹی کے حکام کے علاوہ بڑے سرمایہ کار اداروں کے سربراہ بھی ہوں گے۔ ژی جن پنگ کی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات ہوگی جس میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں پر تبادلہ خیال ہوگا۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے چین کے صدر ژی جن پنگ کے 20 اپریل کو پاکستان کے دو روزہ دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی صدر کا یہ دورہ پاکستان چین تعلقات کو نئی جہت دینے، دونوں ممالک میں سٹریٹجک تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ چینی صدر کے دورے کو پاکستان چین تعلقات کو مستحکم اور رشتوں کو مضبوط بنانے کیلئے خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق اقتصادی راہداری چینی علاقے کاشغر سے پاکستان میں بلوچستان کے سی پورٹ گوادر تک جائیگی۔ اس منصوبے پر گزشتہ سال نومبر میں بیجنگ میں دستخط کئے گئے تھے۔ ترجمان کے مطابق چینی صدر کے دورہ پاکستان میں اسلام آباد میں چین اور پاکستان کے درمیان توانائی، تعلیم، ثقافت کے شعبوں میں بھی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوں گے۔ پاکستان کے دورے کے بعد چین کے صدر انڈونیشیا بھی جائیں گے جہاں وہ جکارتہ میں ایک کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔ رائٹرز کے مطابق چینی نائب وزارت خارجہ لی جیانکو نے وضاحت کی ہے کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر 46 ارب ڈالر کی رقم استعمال ہوگی تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ رقم ایشیائی انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک یا شاہراہ ریشم کیلئے مختص فنڈز سے استعمال ہوگی۔ انہوں نے اس کی تردید کی ایک سینئر عہدیدار کے مطابق منصوبے کیلئے رقم دونوں ممالک اکٹھی کریں گے چینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ انتہائی اہم ہے تاہم انہوں نے فنڈز کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔ دریں اثنا امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے چینی صدر کے پاکستان کے دورے کی تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین کے صدر پاکستان کے دورے کے دوران46 ارب ڈالرکے منصوبوں کا اعلان کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق چین مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے پاکستان کو ترقیاتی ملکوں میں شامل کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ امریکی جریدے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چینی صدر کے پاکستان کے دورے کے بعد چین اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ چینی صدر کے دورہ کے موقع پر 45 ارب ڈالر کے تاریخی منصوبوں کے معاہدوں پر د ستخط ہونگے، ان پر کام آخری مراحل میں ہے، 35 سے 37 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کیلئے مختص کئے جا رہے ہیں، 10400 میگاواٹ پاور کے منصوبے 2016ء تک مکمل ہوں گے، ٹرانسمیشن لائنز کی تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جائے گا، چین کے تعاون سے نیا انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی تعمیر کیا جائیگا اور گوادر کو سنگا پور اور دوبئی کی طرح انٹرنیشنل پورٹ بنائیں گے، 37 ارب ڈالر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہے اس میں بنکوں کا کوئی قرضہ نہیں ہے۔ چینی کمپنیوں کو چینی بنک قرضہ دیں گے اور حکومت پاکستان چینی کمپنیوں کے ساتھ آئی پی پی کی طرز پر بجلی خریدنے کے معاہدے کرے گی، 2025تک توانائی کی پیداوار دگنی ہوجائیگی، تھر میں 6600میگاواٹ کے منصوبے شروع کئے جائینگے، میڈیا اور حکومت کے درمیان بھی اکنامک پارٹنر شپ قائم کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں سے پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کر دی گئیں، گوادر سے خنجراب تک اقتصادی راہداری کا منصوبہ ایک سڑک کا نام نہیں ہے، اسکے تحت روٹس مختلف مارکیٹس تک جائیں گے، مغربی روٹ سب سے پہلے مکمل ہو گا جو ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئٹہ اور دیگر علاقوں تک جائیگا۔ وہ ٹی وی چینلز‘ اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹرز اور بیورو چیفس کو چینی صدر کے دورہ پاکستان اور مجوزہ معاہدوں کے حوالے سے بریفنگ دے رہے تھے۔

Categories: چینی صدر کی پاکستان آمد ، توانائی ، اقتصادی راہداری سمیت اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہو نگے | Leave a comment

واہ آرڈیننس فیکٹری کی تعمیر کا آغاز

قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان میں ایک ایسے کارخانے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں اسلحہ سازی کی جاسکے اور ملک کو اسلحہ سازی کی صنعت میں خودکفیل کیا جاسکے۔ 2 مئی 1949ء وہ یادگار دن تھا جب واہ کینٹ کے علاقے میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا۔ یہ تعمیر تقریباً ڈھائی سال میں مکمل ہوئی اور 28 دسمبر 1951ء کو پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی اس پہلی آرڈی ننس فیکٹری کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کے موجودہ غیر یقینی حالات کے پیش نظر پاکستان کے دفاع کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لیے مسلح افواج کی دیکھ بھال اور ان کے لیے بہترین اسلحے کی فراہمی کو دوسرے تمام کاموں پر فوقیت دی گئی ہے۔ پاکستان آرڈی ننس فیکٹری، پاکستان کی دفاعی ضروریات پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے اور یوں پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ایک روشن مینارہ بن چکی ہے

11182271_1055183624509657_7705715965811301293_n - Copy 19726_1055183571176329_8523760219339957537_n - Copy

Categories: واہ آرڈیننس فیکٹری کی تعمیر کا آغاز | Leave a comment

تصور یعنی مراقبہ علم قدیم اور جدید

تصور یعنی مراقبہ علم قدیم اور جدید

مراقبہ یا تصور،جس کو انگریزی میں میڈیٹیشن کہا جاتا ہے اور اگر اسی متبادل کو ہم پلہ برائے لفظِ مروجہ عربی ، فارسی اور اردو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مراقبہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ؛ مراقبہ ایک ایسی عقلی تادیب  کا نام ہے کہ جس میں کوئی شخصیت ماحول کے روابطِ حیات سے ماورا ہو کر افکارِ عمیق کی حالت میں چلی جائے اور اندیشہ ہائے دوئی سے الگ ہوکر سکون و فہم کی جستجو کرے۔ یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکرِ آلودہ سے دور ہوکر فکرِ خالص کا حصول مراقبہ کہلاتا ہے۔ میڈیٹیشن کو تاریخ اسلام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو لفظ مراقبہ کا درست متبادل تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اسلام میں آج کے دور میں  شامل مختلف طریقہ ہائے کار کا کوئی تصور نہیں ہے؛ عبادت میں خشوع و خصوع ہی اصل میں درست طور پر وہ طریق کار ہے کہ جس کی اسلام میں وضاحت ملتی ہے۔ عبادت میں توجہ اور خشوع و خصوع کے علاوہ کسی دیگر طریقے سے مراقبہ کو اسلام کا جز نہیں کہا جاسکتا۔
مراقبہ انسان کا اپنی خودی یا ذات میں گہرائی کی طرف ایک سفر ہے جس سے انسان اپنے اندر (باطن) میں اپنا اصلی گھر  یا فکر و سوچ کا ایک خاص مقام تلاش کر سکتا ہے۔ مراقبہ چونکہ ذہن کی ایک نفسیاتی کیفیت ہے اور اس کا انسانی شعور  سے گہرا اور براہ راست تعلق ہوتا ہے، اس لیئے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق اور تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ ہونے کی مراقبہ میں کوئی قید نہیں ہے گویا مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا فکری عمل ہے۔ مراقبہ ، مراقب (شخصیت) کی توجہ اس کے باطن (ماحول کے اثرات سے دور یکسوئی) کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے اور اس طرح یکسوئی سے کی جانے والی فکر کے دوران انسان کی توجہ چونکہ مختلف خیالات میں بکھرے اور بھٹکے ہوئے شعور سے الگ ہوکر کسی ایک بات پر یکسوئی سے مرتکز ہو جاتی ہے لہذا ذہنی و نفسیاتی طور پر انسان ایک قسم کی حالتِ سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مراقبے سے انسان کی توجہ؛ مختلف خیالات میں منتشر شعور (مجازی مراکز) کے بجائے کسی ایک فکر پر مرتکز شعور (حقیقی مرکز) سے مربوط ہو جاتی ہے ۔ اگر تمام دنیاوی خیالات سے الگ ہوکر محض عبادت پر توجہ کی جائے تو عبادت میں خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہے جس سے انسان مادی تصورات سے جدا ہوکر دینی علم میں اضافہ کر سکتا ہے اور کم از کم اسلام میں اسے خاص طور پر مراقبہ کے نام سے تعبیر نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ دنیاوی خیالات سے دور رہ کر خود کو اللہ کے سپرد (عبادت میں مشغول) کر دینے کی کیفیت ہے، عبادت میں طاری اس ذہنی کیفیت کو لغتی معنوں مراقبہ ہی کہیں گے لیکن اسلام میں مراقبہ (اپنے رائج تصور میں)نہ تو عبادت کا حصہ ہے اورنہ ہی عبادت کے لیئے لازم ہے۔ اس کے برعکس ایسے مذاہب بھی ہیں کہ جن میں مراقبہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، جیسے بدھ مت اور ہندو مت وغیرہ۔ ۔حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے اور اس تصور سے مراد مراقبے کی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر شعور میں بیدار افکار سے ہوتی ہے۔ مراقبہ نفسیاتی علم کی وہ قسم ہے جو انسان کی شخصیت ، روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور ان سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ، ظاہری زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے اور زندگی کی حقیقت کو قریب سے سمجھنے اور اسکی ظاہری نا پائداری کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ مراقبہ کو ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، جتنا زیادہ اس عمل (مشق / ریاض) کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی

1

22

4

3

Categories: تصور یعنی مراقبہ علم قدیم اور جدید | Leave a comment

خواب اور اس کی تعبی

خواب اور اس کی تعبی
حافظ محمد ادریس ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی لاہور

images-8

[بچوں کے لئے لکھی گئی کہانی جس میں بڑوں کے لئے بھی دعوتِ فکر ہے، اس لئے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔]
انیس گاﺅں کے ایک کاشتکار گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ اس کے والدین نے اسے بڑی محنت مشقت کرکے میٹرک تک تعلیم دلوائی۔ گاﺅں کے قرب و جوار میں کہیں کوئی کالج نہیں تھا۔ انیس نے میٹرک میں بہت اچھے نمبر حاصل کئے تھے۔ اس کا اپنا بھی شوق تھا کہ مزید تعلیم حاصل کرے اور اس کے اساتذہ کا بھی یہی مشورہ تھا، مگر انیس کے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ اپنے ہونہار بچے کو کالج کی تعلیم کے لئے کسی شہر مَیں بھیج سکیں۔ انیس نے اپنے نصاب میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک فقرہ اس کا پسندیدہ ترین فقرہ تھا۔ یہ تھا ”جہاں چاہ وہاں راہ“۔ وہ اپنے مستقبل کا نقشہ ذہن میں لاتا تو بے ساختہ یہی فقرہ اس کی زبان پر آجاتا، پھر وہ دیر تک اس کو دہراتا رہتا۔ آج اس کی زبان پر یہ فقرہ آیا تو وہ زیرِ لب مسکرانے لگا اور سوچتا رہا کہ بھلا میرے معاملے میں یہ کیسے ممکن ہوگا؟
اس رات انیس نماز عشا کے بعد لیٹا تو دیر تک اسے نیند نہ آئی۔ آخر سورة الملک کی تلاوت کرتے کرتے، اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے آج ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ ایک راستے پر چلا جارہا تھا کہ اسے تھکن محسوس ہوئی۔ وہ تھک کر راستے میں پڑے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اچانک ایک خچر سوار وہاں آگیا۔ اس نے انیس سے پوچھا:” کیا تم یہاں کسی کے انتظار میں بیٹھے ہو“؟ انیس نے جواب دیا: ”انتظار تو کسی کا نہیں کر رہا۔ مجھے کالج میںد اخلے کے لئے شہر جانا ہے۔ اب چلنا مشکل ہو رہا ہے، پھر میرے پاس خرچ بھی نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں“؟….
خچر سوار نے کہا: ”مَیں تو شہر نہیں جارہا۔ البتہ مَیں تمہیں شہر میں ایک شخص کا پتا بتاتا ہوں۔ اس سے ملنا، مجھے امید ہے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اس کا نام اللہ داد ہے اور وہ ایک کتب خانے کا مالک ہے“۔ انیس کو امید تو بندھی، مگر اس نے پوچھا :” اللہ داد کا مکتبہ کس جگہ ہے تو خچر سوار کوئی جواب دینے کی بجائے کہنے لگا کہ تم شہر میں جس شخص سے بھی پوچھو گے، وہ تمہیں بتا دے گا….“ اتنا سن کر انیس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا خواب ہے؟ آیا یہ محض خواب ہے یا اس کی کوئی تعبیر بھی ہے۔
تھوڑی دیر بعد پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب وہ خود کو شہر میں محسوس کر رہا تھا۔ اتنا بڑا شہر، لوگوں کا ہجوم! اس کی دیہاتی اٹھان اور شہر کا یہ ماحول دو متضاد چیزیں تھیں۔ اس کی طبیعت گھبرانے لگی، مگر اچانک اس نے دیکھا کہ وہ خچر سوار اس کے سامنے بازار میں چلا آرہاہے۔ اس کے قریب آکر اس نے خچر کو روک لیا اور مسکراتے ہوئے کہا: ”تو تم شہر آہی پہنچے ہونا۔ ماشا ءاللہ تمہاری بڑی ہمت ہے۔ مجھے شہر نہیں آنا تھا، مگر کسی نے مجھے بتایا کہ تم پریشان ہو تو مَیں تمہاری رہنمائی کے لئے آیا ہوں۔ تم شیر شاہ سوری روڈ کا پتا پوچھ کر وہاں جاﺅ۔ عالمگیر چوک میں اللہ داد کا کتب خانہ ہے۔ وہ وہاں تمہارا انتظار کر رہا ہے۔“ انیس خچر سوار سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا، مگر وہ اس کی بات سنے بغیر ہی لوگوں کے ہجوم میں گم ہوگیا۔ اب انیس نے قریب کھڑے ایک چھابڑی فروش سے شیر شاہ سوری روڈ کاپوچھا تو اس نے کہا: ”یہاں سے ایک میل کے قریب سیدھے چلے جائیں تو یہ روڈ شروع ہوجائے گی“۔ اس کے ساتھ ہی دوبارہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے خود کلامی میں [اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے] کہا: ”کمال پہیلی ہے۔ یہ خچر سوار ہر بار آدھی بات بتاتا ہے ، پھر غائب ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں یہ کیا تماشا ہے؟ بہرحال انہی سوچوں اور استغفار کے ورد کے ساتھ پھر سے اس کی آنکھ لگ گئی اور صبح کی اذان کے ساتھ معمول کے مطابق اس کی آنکھ کھلی۔
فجر کی نماز پڑھ کر انیس نے حسب معمول درس حدیث سنا جو مسجد کے امام روزانہ صبح دیا کرتے تھے۔ امام صاحب گاﺅں کے ایک بڑے زمیندار بھی تھے اور بڑی علمی شخصیت بھی۔ انیس ان سے مختلف موضوعات پر پہلے بھی سوالات کیا کرتا تھا اور وہ اس کے تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے۔ اس کے سکول ٹیچر ملک احمد یار کے علاوہ امام مسجد مولانا فضل کریم صاحب کا بھی اس کی تربیت میں بنیادی کردار تھا۔ اس نے امام صاحب کو اپنا خواب سنایا اور اپنی تعلیمی تڑپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا :”برخوردار خوابوں کی تعبیر تو ضرور ہوتی ہے، مگر عام آدمی کا ہر خواب کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ ہاں اللہ کے پیغمبروں کے خواب بامعنی ہوا کرتے تھے۔ نبوت و پیغمبری تو ختم ہوچکی ہے۔ جہاں تک تمہارے خواب کا تعلق ہے، مَیں ان شاءاللہ آج ظہر کی نماز کے بعد تمہیں اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تعبیر بتاﺅں گا“….
ایک بزرگ نمازی نے کہا: ”یہ خواب تو محض خیالاتِ پریشان ہوتے ہیں۔ خوابوں کو چھوڑیئے۔ محنت کیجیے اور اللہ سے مدد مانگئے۔“ امام صاحب نے بابا جی کی بات سن کر کہا: ”جی آپ نے بھی ٹھیک فرمایا ہے، مگر خوابوں کی تعبیر ضرور ہوتی ہے، البتہ اس تعبیر کے لئے خود انسان کی کاوش بہت اہمیت رکھتی ہے“۔
ظہر کی نماز پر امام صاحب نے انیس کو بتایا کہ شیر شاہ سوری اور اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کے مسلم حکمرانوں میں سے دو صاحبِ عزم و ہمت بادشاہ تھے۔ تمہارے خواب میں ان کا تذکرہ بتاتا ہے کہ تم بھی ہمت سے کام لوگے تو تمہاری منزل آسان ہوجائے گی۔ اللہ کا نام لو، شہر جانے کا خرچہ مجھ سے لے لو، ماں باپ کو راضی کر لو، اللہ داد تم کو کسی نہ کسی صورت میں مل جائے گا۔ جا کر کالج میں داخلہ لو“۔ اتفاق سے آج ماسٹر احمد یار صاحب بھی مسجد میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا :”برخوردار تمہارے نمبر اتنے زیادہ ہیں کہ تمہارا وظیفہ لازماً لگ جائے گا۔ شہر میں تعلیم کے ساتھ کئی علمی و تعلیمی کام کرنے کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔ تم اللہ پر توکل کرو اور خچر سوار کا انتظار کئے بغیر اپنی مہم پر روانہ ہوجاﺅ۔ امام صاحب کے ساتھ مَیں بھی تمہارے لئے کچھ رقم فراہم کردوں گا“۔
یہ سب ماضی کی باتیں تھیں۔ آج انیس الرحمان اپنی کوٹھی کے لان میں بیٹھا، اپنے اس ماضی کو یاد کر رہا تھا۔ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم، پھر ملازمت اور مسلسل ترقی! واہ اللہ تیری کیا شان ہے!! وہ سوچنے لگا کہاں وہ ایک دیہاتی لڑکا اور کہاں آج کالج کا پرنسپل! انیس کے والدین کئی سال قبل داغِ مفارقت دے گئے تھے۔ امام صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور ماسٹر احمد یار بھی وفات پاگئے۔ آج بھی ان کی یادوں کی خوشگوار خوشبو دل و دماغ میں رچی بسی تھی۔ اسے یاد آیا کہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ایک بار نہیں، کئی بار امام صاحب نے اس سے کہا تھا: ”انیس، بیٹا تم بہت بڑا مقام پا لو گے، مگر خود کو ہمیشہ چھوٹا ہی سمجھنا ….جو لوگ خود کو چھوٹا سمجھیں، انہی کا بیڑا کنارے لگتا ہے۔ خود کو بڑا سمجھنے والوں کا بیڑا آخر بیچ منجدھار ہی غرق ہوجایا کرتا ہے۔“
انیس کو ایک ایک بات یاد تھی۔ آج سرِ شام گھنے درختوں کے جھنڈے میںہر قسم کے پرندے بیٹھے تھے۔ فاختہ کی آواز سب سے انوکھی اور دلکش تھی۔ وہ تو معمول کے مطابق ”گھو گوں گھوں“ہی پکار رہی تھی، مگر انیس کو یوں لگ رہا تھا جیسے کہہ رہی ہو: ”انیس سمجھ تو، چھوٹا ہے بڑا نونہہ (نہیں ہے)“۔ پھر سبز طوطوں کا ایک جھنڈ آیا اور اپنی مخصوص بولی میں حمد و تسبیح کرنے لگا۔ انیس کے ذہن میں ان کی آواز یوں گونج رہی تھی ”انیسو [اس کی والدہ پیار سے بچپن میں اسے انیسو ہی کہتی تھی] یاد رکھ، یاد رکھ اپنی اصل کوں [کو]۔“
آج انیس کو امام صاحب کا ایک درس پھر شدت سے یاد آیا اور اس کی آنکھوں میں اسی طرح آنسو آگئے۔ جس طرح درس سننے کے وقت آج سے چالیس سال قبل آئے تھے۔ ”حضرت عمرؓ خلیفہ تھے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ رات کے وقت مسجد نبوی میں گئے تو اندھیرے میں محسوس ہوا جیسے کوئی کسی کو کوڑے مار رہا ہو۔ تعجب اور پریشانی کے ساتھ جب آگے بڑھے تو پتا چلا کہ امیر المومنین خود کو کوڑے، مار رہے ہیں“۔ حضرت عبدالرحمان نے حیرت سے پوچھا: ”امیر المومنین یہ کیا“؟ تو جواب میں فرمایا: ”اے ابنِ عوف، میرے نفس نے کہا کہ تو بہت بڑا حکمران ہے، تیری سلطنت کی حدیں قیصر و کسریٰ کی شہنشاہیت سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ تو مَیں نے اسے سمجھایا ہے کہ اپنی حدود میں رہنا سیکھ، تو وہی عمر ہے جو مکہ کی وادیوں میں اپنے ماموں کی بکریاں روٹی کے عوض چرایا کرتا تھا….“
انیس کی بیگم نے آواز دی: ”پرنسپل صاحب چائے اندر آکے پیئں گے یا وہاں لے آﺅں“۔ انیس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا: ”آج چائے کا موڈ نہیں۔ یہ چائے مالی کو پلادو“۔

Categories: خواب اور اس کی تعبی | Leave a comment

سعادت حسین منٹو

download

سعادت حسن منٹو کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ منٹو 11مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانے میں پیدا ہو ا ۔ اس کے والد لدھیانے کی کسی تحصیل میں تعینات تھے-دوست اسے ٹامی کے نام سے پکارتے تھے ۔منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا۔ سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ اس کی والدہ اس کی طرف دار تھی۔ وہ ابتدا ہی سے تعلیم کی طرف مائل نہیں تھا۔ اس کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ اس کا تعلیم کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کےبعد اس نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر منٹو نے ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955 ان کا انتقال ہوا۔ سعادت حسن منٹو اردو کا واحد کبیر افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہے جس کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھا جس نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-افسانہ مجھے لکھتا ہے منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری انسانی جدوجہد بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے نے لکھا ۔ منٹو نے دیکھی پہچانی دنیا میں سے ایک ایسی دنیا دریافت کی جسے لوگ اعتنا نہیں سمجھتے تھے یہ دنیا گمراہ لوگوں کی تھی۔ جو مروجہ اخلاقی نظام سے اپنی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں پر چلتے تھے ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی ۔ یہ لوگ منٹو کا موضوع تھے اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی تھی جو معمار افسانہ نویس کی پہلی اینٹ تھی۔ اس کے افسانے محض واقعاتی نہیں تھے ان کے بطن میں تیسری دنیا کے پس ماندہ معاشرے کے تضادات کی داستان موجود تھیں 

  افسانے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

https://monthlyaraafinternational.wordpress.com/saadat-hasan-manto-ke-afsanay/

Categories: Uncategorized | Leave a comment

خونی چاند گرہن اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز

تحریر: سید نصیر الدین ہاشمی

یمن اور سعودی عرب کے تنازعہ کے درپردہ طاقتوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہاں بھی صہیونی ریشہ دوانیوں کا جال دکھائی دیتا ہے
حضرت موسیٰ نے پوچھا کہ بتاﺅ اس وقت موسی کہاں ہے ؟ یہودی نے زائچہ کھینچا اور جواب دیا کہ اس وقت موسیٰ ہمارے درمیان موجود ہے

blood-moon-2 - Copy

سائنس کہتی ہے کہ جب زمین سورج اور مریخ ایک ہی قطار میں آجاتے ہیں تو اس ترتیب کے نتیجے میں چاند کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو جاتا ہے جسے خونی چاندگرہن بھی کہا جاتا ہے ۔ سال رواں کے آغاز میں جب ماہرین فلکیات نے پیشن گوئی کی کہ اپریل سے ا ٓسمان پر سرخ چاند گرہن کا آغاز ہونے والا ہے تو اس چاند گرہن سے متعلق مختلف تاریخی ماہرین اور علم نجوم کے ماہر حضرات کی چاند سے متعلق مختلف آراءخیالات اور بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا خونی رنگت والے چاند کے نظارے کو دنیا کے خاتمے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کی نشانی قرار دیا جانے لگا ، تو کہیں سے یہ تاریخ بھی بیان کی جانے لگی کہ ایسے چاند گرہن کے بعد جب چاند سرخ ہوجاتا ہے تو اہل یہود کو دنیا میں بادشاہت حاصل ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے ، اس بیان کا یہودیوں کی تاریخ کے حوالے سے جائزہ لینے سے پہلے ہمیں امریکی خلائی ادارے ناسا کے اس بیان کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جس میں ناسا نے سال2014ءاور2015ءمیں بلڈ مون کے بارے میں تصدیق کی تھی کہ یہ چاند وقفے وقفے سے چار مرتبہ نمودار ہوگا ۔ گزشتہ سال 2014ءمیں دو بار اور 2015ءمیں بھی دو بار ، پچھلے سال15 اپریل اور 18 اکتوبر کو اس خونی چاند کا نظارہ دیکھا گیا یہ منظر اس وقت تک قائم رہا جب تک مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ20 لاکھ میل نہ ہوگیا ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ صدیوں کے دوران ایسے خونی چاند گرہن تین بار وقوع پذیر ہوچکے ہیں ۔

pakistan

یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود میں لکھا ہے کہ جب ایسا چاند گرہن لگتا ہے تو وہ بنی اسرائیل کے لئے ب±را شگون ہوتا ہے، دنیا پر تلوار کا سایہ پڑ جاتا ہے مگر ”یہ ہماری فتح کی نشانی بھی ہے“۔ یہودی بہ ظاہرعلم نجوم پر یقین نہیں رکھتے مگر تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی علم نجوم پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کا ایک یہودی کے پاس سے گزر ہوا جو زائچہ بنانے میں مصروف تھا وہ آپ کو نہیں جانتا تھا آپ نے اس سے پوچھا کہ بتاﺅ اس وقت موسی کہاں ہے ؟ یہودی نے زائچہ کھینچا اور جواب دیا کہ اس وقت موسی ہمارے درمیان موجود ہے تو موسی ہے یا میں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہودی دو ہزار سال سے سرخ چاند گرہن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ سورج اور چاند گرہنوں کے دوران کرہ ارض کی تبدیلیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا ہے، جس کے مطابق ماضی میں جب بھی خونی چاند گرہن ایک ترتیب سے ظاہر ہوئے تو بنی اسرائیل پر ہمیشہ آفت آئی مگر ان کے عقیدے کے مطابق اس آفت میں ا±ن کی یقینی فتح بھی پوشیدہ رہی ہے، تاریخ میں ایسا متعد بار ہوچکا ہے۔
چاند کا یہ خونی نظارہ ہمیشہ سے یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے دوران ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے قبل یہ چاند گرہن دو یہودی مذہبی تہواروں کے دوران مسلسل رونما ہوئے، 2014 میں دو بار اور 2015 میںان ہی دنوں میں رونما ہونے والے ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں تین مرتبہ ایسا ہوا کہ جب کسی ایک سال میں دو خونی چاند گرہن لگے تو اس سے اگلے برس بھی دو ایسے ہی خونی چاند چڑھے۔

images-5پہلی مرتبہ 93-1492 میں جب اسپین کو ملکہ ازابیلا اور فرڈیننڈ نے فتح کیا تو یہودیوں اور مسلمانوں پر افتاد پڑی اور انہیں جبراً عیسائی بنایا گیا، جو نہیں ہوئے انہیں بہت بڑے پیمانے پر تہِ تیغ کیا گیا اور غلام بنایا گیا۔ یہودیوں کو خاص طور پر ہفتے کے دن کاروبار کرنے اور س±ور کھانے پر مجبور کیاگیا۔ دوسری بار چار خونی چاند گرہنوں کی سیریز، 50 -1949 میں شروع ہوئی تو اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی اور ڈیوڈ بن گوریاں کی حکومت بنی مگر عرب ممالک نے مل کر اسرائیل پرحملہ کیا۔ تیسری مرتبہ 68 -1967 میں چار سرخ چاند چڑھے تو عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی مدد امریکا نے کی اور یوں دو ہزار سال بعد بیت المقدس (یروشلم) پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا۔ گزشتہ کئی سال سے چار خونی چاند کی سیریزکا انتظار والے اب پھر پرا±مید ہیں کہ دنیا پر ان کی باد شاہت قائم ہونے والی ہے۔ یوں سرخ چاندوں کے حوالے سے یہودیوں کا عقیدہ خاصا پیچیدہ ہے، ان چاند گرہنوں کے برسوں میں جہاں انہیں المیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں وہ اسے اپنے مالی استحکام اور اقتدار کے لیے باعثِ برکت بھی قراردیتے ہیں۔ یہ ان محاوروں کے عین مصداق ہے جن میں ہر غم کے بعد خوشی کی نوید دی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی کا پہلا خونی چاند گرہن اپریل 2014 میں لگ چکا ہے۔ اس دوران ا±ن کا سات روزہمشہور تہوار” یدش“ جاری تھا۔ اس تہوار پر یہودی اپنی مخصوص روٹی پکاتے ہیں اور اپنے معبد (Cinagog) کے سامنے قربانی بھی دیتے ہیں۔ دوسرا خونی چاند 8 اکتوبر 2014 کوہوا ۔ اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن اسکوٹ تھا، جس کے آخر میں یوم کپور آتاہے۔ اس تہوار کو یہودی مصر سے صحرائے سینا میں آمد اور وہاں اپنی چالیس سالہ ’در بہ دری‘ کی یاد کے طور پر مناتے ہیں۔

images-1

نئے سال میں تیسرا خونی چاند 4۔اپریل 2015 کو طلوع ہو گا اور یہ ” یدش“ کے دنوں میں آرہا ہے۔ اس کے بعد چوتھا خونی چاند 28 ستمبر 2015 کو نمودار ہو گا اور یہ اسکوٹ کے دنوں میں آئے گا۔ اس پس منظر میں عالمی منظر نامہ کیا ہو گا ؟ اس پر جہا ں دیگر اقوام سوچ رہی ہیں تو وہیں یہودی بھی یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ اس دوران اسرائیل کے ساتھ کسی جنگ کا آغاز ہو گا اور اس کے آخر میں فتح اسرائیل کی ہوگی۔ اس وقت جہاں اسرائیل بھر کے معبدوں میں دعاوئں اور دیوار گریہ پر روایتی گریے کا سلسلہ جاری ہے، وہیں دوسری جانب ان کے زیر سایہ کام کرنے والا عالمی میڈیا اس سارے عمل کو Tragedy and then Triumph کے نام سے یاد کر رہا ہے یعنی پہلے اندوہ پھر کام یابی۔پہلے دبے دبے لفظوں میں جب میڈیا نے اس یہودی فلسفے کے تحت بات شروع کی کہ اب امریکا اس قابل نہیں رہا کہ دنیا میں امن قائم رکھ سکے لہٰذا اسرائیل کو اب خود آگے بڑھ کر دنیا سے دہشت گردی ختم کرنا ہوگی تو اس پر امریکا، اسرائیل سے وقتی طور پر ناراض بھی ہوا تھا مگر اب یہ سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی کہ اسرائیل نے اکتوبر 2o14 سے بہت ہی پہلے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر جو وحشیانہ حملے شروع کیے ، وہ کس لیے اور کیوں تھے؟۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کارروائی مسلمانوں کی بچی کھچی حمیت کو آزمانے کا ٹیسٹ کیس تھا۔ اس ٹیسٹ کیس میں ا±ن کو عرب کے منظر نامے سے جو کام یابی ملی تھی، وہ ا±سے بھی رواں سال کے پہلے خونی چاند سے تعبیر کر رہے ہیں۔

images-2 مشرق وسطی کے حالیہ سیاسی منظر پر نظر ڈالیں تو صورتحال کچھ اچھی دکھائی نہیں دے رہی ہے ، جنگی آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار ہیں یمن اور سعودی عرب کے تنازعہ کے درپردہ طاقتوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہاں بھی صہیونی ریشہ دوانیوں کا جال دکھائی دیتا ہے ۔ قرب قیامت کی علامتوں پر نظر ڈالی جائے تو اسلام اور یہودیت میں حتمی معرکہ آرائی سر پر منڈلاتی نظر آتی ہے ، ۔ یہودیوںکے نزدیک تاریخ میں جب کبھی چار خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے ہوں تو پھر بنی اسرائیل کے لیئے ا یک ا یسی آفت کا آغاز ہوتاہے جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے، اور آخر فتح ہو ہی جاتی ہے، اور ایساتاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ اس سارے عمل کو وہ” ایلی“ یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی جانتے ہیں۔
دراصل چاند اور سورج گرہن اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس موقع پر دعاواستغفار کا اہتمام کریں ۔ یہ سچ ہے کہ آپ ﷺگرہن کے اوقات میں نماز میں مشغول ہو جایا کرتے تھے ۔ اور آپ ﷺ نے امت کو بھی اس کی تلقین کی لیکن یہ گرہن کے ڈر یا نحوست یا کسی اور طرح کے وہم ،گمان کی وجہ سے نہیں بلکہ آپﷺ صرف خالق کائنات سے ڈر تے اور اسی سے ڈرنے کا حکم دیتے ، ایک مسلمان کا اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے

Categories: خونی چاند گرہن اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز | Tags: | Leave a comment

Namaz-e-Jinaza of Major General Naushad Ahmed Kayani (Late),

5558 who breathed his last on November 9, was offered today at Rawalpindi. General Ashfaq Parvez Kayani, Chief of Army Staff, Parliamentarians, and a large number of senior serving and retired officers from three services, other ranks and people from all walks of life attended Namaz-e-Jinaza. Late Major General Naushad was buried with full military honour at Army Graveyard, Racecourse Rawalpindi. Major General Naushad Ahmed Kayani (Late) was commissioned in Army in 1982. He was promoted Major General in 2010 and appointed DGMI . He is survived by a widow, three daughters and a son.

Categories: Uncategorized | Leave a comment

Jamat-e-Islami clearly explain

A spokesman of ISPR1003729_648849471812329_1908846137_n strongly condemned the irresponsible and misleading remarks by Syed Munawar Hassan in a TV programme, declaring the dead terrorists as shaheeds while insulting the shahadat of thousands of innocent Pakistanis and soldiers of Pakistan’s armed forces. Syed Munawar Hassan has tried to invent a logic based on his political convenience. Strong condemnation of his views from an overwhelming majority leaves no doubt in any one’s mind that all of us are very clear on what the state of Pakistan is and who are its enemies.

Sacrifices of our shuhada and their families need no endorsement from Syed Munawar Hassan and such misguided and self-serving statements deserve no comments. However, coming from Ameer of the Jamat-e-Islami, a party founded by Maulana Maududi, who is respected and revered for his services to Islam is both painful and unfortunate.

The people of Pakistan, whose loved ones laid down their life while fighting the terrorist, and families of shuhada of armed forces demand an unconditional apology from Syed Munawar Hassan for hurting their feelings. It is also expected that Jamat-e-Islami should clearly state its party position on the subject.

Categories: Uncategorized | Leave a comment

Chief of Army Staff, General Ashfaq Parvez Kayani visited formations of Central Command engaged in field training as part of Army

Chief of Army Staff, General Ashfaq Parvez Kayani visited formations of Central Command engaged in field training as part of Army Field Exercise near Kharian, and witnessed maneuvers involving Corps and Division size offensive operations during day and night.

COAS appreciated the high state of morale and training standard displayed by participating troops and urged all ranks to maintain their combat efficiency to meet future challenges.

Army Field Exercise, Azm- e- Nau-4 is the Final phase of validating newly evolved concepts and will conclude on 4th November.

Earlier, on his arrival in exercise area Chief of Army Staff was received by Lieutenant General Tariq Khan, Commander 1 Corps.1003729_648849471812329_1908846137_n

Categories: Uncategorized | Leave a comment

Create a free website or blog at WordPress.com.